Saturday, August 18, 2012

عید سعید کی سماجی اہمیت وافادیت

ایک ماہ کے مسلسل روزوں کے بعد اللہ تبارک وتعالی اپنے بندوں کوعیدکی شکل میںعارضی جزاعطافرماتا ہے تاکہ انہیں خوشیوں کا موقع ملے لیکن یہ بات بھی اسلام کے پیش نظر ہمیشہ رہتی ہے کہ امت محمدیہ کبھی بھی حد سے تجاوز نہ کرے ،منشائے خداوندی کے مطابق ہی زندگی کے ایام گزارے یہی وجہ ہے کہ خوشیوں کے مواقع پر بھی تمام غیر شرعی باتوں سے اجتناب کرنے اور معاشرہ کوساتھ لے کر چلنے کا حکم دیا گیا ہے ۔فطرے کی ادائیگی کی اصل منشا یہی ہے کہ معاشرے کے غربا بھی مین اسٹریم میں آجائیں اسلام کا نظام زکاۃ اور فطرہ نہ صرف غربا مسلمانوں کی تفریق کو مٹادینے والا ہے بلکہ اگر اس پر عمل در آمد کو یقینی بنا یا جائے تو مسلم معاشرے میں ایک بھی انسان غریب نہیں نظر آئےگا ۔
یہ ساری باتیں تو خیر داخلی سطح کی ہیں ،ان احکامات کو یقینی بنایا جانا چاہئے ۔لیکن اس تکثیری معاشرے میں جہاں ہم بستے اور سانسیں لیتے ہیں اس معاشرے کے بھی کچھ تقاضے ہیں جنہیں ہمیں محسوس کرنا چاہئے چوں کہ پہلی صدی ہجری کےاسلامی معاشرے نے اسے ہمیشہ پیش نظر رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ پہلی صدی ہجری کے مدینہ میں بھی مسلمان دیگر مذاہب کے متبعین کو اپنی خوشیوں میں شریک کرتے تھے ،انہیں بھی بحیثیت پڑوسی ان کا حق دیا کرتے تھے ۔تاریخ اسلامی کے اوراق گواہ وشاہد ہیں کہ رسول اسلام اور متبعین اسلام تازندگی پڑوسیوں کے حقوق پر روشنی ڈالتے رہے اور جہاں کہیں موقع ملا ایسا نمونہ پیش کیاکہ اس کے بعد اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ،اسلام کی عملی تاریخ ہمیںتعلیم دیتی ہے کہ ہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیش کریں ،قومی یکجہتی کی عملی تصویر بن جائیں یہی منشائے دین ونبوت ہے اور یہی اسلامی اعمال پر پابندی اوراستحکام کا ایک ذریعہ بھی ثابت ہوسکتا ہے چوں کہ جب تک ہمارے روابط دیگر مذاہب کے متبعین سے خوش گوار نہیں ہوں گے ہمیں اسلامی اعمال کی ادائیگی میں ضرور دشواریاں آئیں گی ۔اس لئے ہمارے تعلقات برادران وطن سے بہتر ہونے چاہئیں۔ایسا بھی نہیں ہے کہ اسلام نے اسے سرے سے خارج از امکان قراردیا ہے ۔مگر ہم اس طرف توجہ نہیں دیتے ۔
ہم عید کے بعد عرصہ تک عید ملن کی تقاریب کا انعقاد کرتے ہیں ،سیاسی پارٹیاں بھی اس میں دلچسپی لیتیہیں ،ہندوستان گیر سطح کے رہنمائوں ،وزیر اعظم ،وزرائے اعلی ،سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کی رہائش گاہوں پر عید کی مناسبت سے دعوتیںہوتیہیں ۔لیکن وہ یہ سب نہ کریں جب بھی  ایک ہیں اور آئندہ بھی حصول مقصد کے لیےمتحد رہیں گے ،مسئلہ ان کے دلوں کو جوڑنے کا ہے جن کے دل بعض مواقع پر ٹوٹتے ہیں اور اس کے ذمہ دار بعض دفعہ ہمارے سیاسی رہنما ہی ہوتے ہیں ۔ایسے میں ہمارے بزرگان دین کے اعمال ہمارے لئے نمو نہ عمل بن سکتے ہیں ۔چوں کہ انہوں نے جس اندازسے ہندوستانی عوام کا دل جیتا ہے ،اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی ۔
موجودہ تناظر میں عید محض بال بچوں کے ساتھ خوشیا ں منانے کا نام نہیں ہے ۔اس کو موقع غنیمت سمجھ کر برادران وطن کے مابین زیادہ سے زیادہ اخوت ،بھائی چارگی ،فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کے جذبات پیش کریں ۔ہندوستان میں عید کو بلا تفریق مذہب وملت منانےکی روایت ملتی ہے اور یہ روایت نہ صرف سراہے جانے کے لائق بلکہ لائق عمل بھی ہے ۔عید کے موقع کو تکثیریت پسند بنایا جانا چاہئےاس کو تبلیغ دین کا بھی ذریعہ بنایا جاسکتا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک ہم اپنے مدعو کے ممدوح نہیں ہوں گے وہ ہماری باتیں نہیں سن سکتے ۔
ایک زمانہ تھا جب بزرگان دین کی شخصیات اتنی پر کشش تھیں کہ بلا تفریق مذاہب عوام ان کےپاس آتے تھے اور ان سے دعائیں لیتے تھے، ان سے مستفید ہوتے تھے،ان سے علوم وفنون سیکھتے تھے ،شب وروز کی مصاحبت اور ان کے اعمال وافعال اور کردار سے متاثرہوکر بالآخر اسلامی زنبیل کےقیدی ہوجاتے تھے ۔لیکن المیہ یہ ہوا کہ ان نفوس قدسیہ کے بعد ویسی موثر شخصیات کو پیدا کرنا اسلامی معاشرہ نے چھوڑ دیا دیگر اقوام کی طرح مسلمانوں کے اندر سے بھی احساس سودوزیاں جاتا رہا ۔وہ بھی خودی کھو بیٹھے اب بس نام کے وہ مسلمان تو تھے ان میں وہ عزائم وارادے نہیں تھے جن کے لئے ان کے آبا یہاں ہمیشہ معروف رہے ہیں ۔اس مستزاد یہ کہ اپنی حکومت و سلطنت کو ہمیشگی پر مبنی سمجھنے والے سلاطین نے دیگر اقوام ومذاہب کے متبعین کے دلوں میں نفرت کا شعلہ فشاں پیدا کرنےکاسبب بنے۔اس وقت تو معاملہ مسلمانوں کی سمجھ سے باہر تھا اور یہ طویل سلطنت کے خمار میں مست تھے لیکن آنے والے وقتوں میں حالات نے بتا دیا کہ اب بادشاہت ختم ہوچکی ہے اور اس ہندوستان میں اب جینا ہے تو صوفیہ کے طریقہ کار کے مطابق جینا ہوگا بصورت دیگر تمام حالات تمہارے خلاف ہوں گے ۔
بہر حال اس صورت حال کے اختتام کے لیےعید ،بقرعید ،جشن عید میلادالنبی کے مواقع کو ایام دعوت وتبلیغ کے طور پر منایا جائے اور اس میں دیگر اقوام کو اعتماد میں لیا جائے صرف مسلم محلوں کے اپنے رشتہ داروں کی سویوں،مٹھائیوں،شیرکیضیافت سےاب بات نہیں بنے گی اب مسلم محلوں سے باہر نکلنا ہوگا اور دلتوں کو گلے لگانا ہوگا ،عید کی مناسبت سے گلیوں اور چوراہوں کو صاف کرنے والوں کو عیدی سے نوازنا اور انہیں بھی گلے لگانا ہوگا تبھی بات بنے گی چوں کہ وہ آج بھی احساس کمتری میں جیتے ہیں اور اسلام نے سب سےبڑا جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ یہی ہے کہ اس نے بے سہاروں کو سہارا دیا ،معاشرے کے دبے کچلے عوام کو جینے کاطریقہ ،سلیقہ اور حوصلہ دیاانہیں اپنے وقت کے چودھریوں کے چنگل سے آزاد کرایا ۔کیا آج ہم اسوصف اسلام کو مزید مستحکم نہیں بناسکتے ؟ـ
یہ منظر دیکھ کر بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ مسلم عوام مساجد سے نماز عید الفطر ادا کرکے نکلتے ہیں اور وہاں پرموجود لاٹھی ،ڈنڈوں سے لیس پہریدار پولیس اہلکار کو نظر انداز کرکےاپنے گھروں کی راہ لے لیتےہیں ۔حالاں کہ ان اوقات میں اگر کوئی ان کا تعلقاتی مل جاتا ہے تو وہ ان سے مصافحہ ومعانقہ کرتے ہیں لیکن وہ پولیس والوں کو اس لائق نہیں سمجھتے گو کہ اس وقت وہ مسلم محلوں میں آن ڈیوٹی ہوتے ہیں اور موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اس لیے اگر کوئی مسلمان ان سے معانقہ کرنا چاہے تو وہ چاہ کربھی انکار نہیں کرسکتے مگر ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ قومی بھائی ہونےکی حیثیت سے ہماری محبت اور اخوت کے حق دار یہ بھی ہیں اور انہیں ان کے حق سے محروم کرنے کاہمیں کوئی حق نہیں ۔ان سطروں کو لکھتے ہوئے مجھےاپنے بھائیوں عاطف وساجد ،عشرت جہاں ،بٹلہ ہائوس کا فرضی انکائونٹر ،گجرات فرضی انکائونٹر،گجرات فسادات اور ملک میں روارکھے جانے والے مظالم کے سینکڑوں واقعات ذہن کے پردے پر ابھررہے ہیں اور کل کی طرح آج بھی لائق مذمت اور ناقابل فراموش ہیں لیکن کیا اس کے کچھ ہم خود بھی ذمہ دار نہیں کہ آ ج کا مسلمان اپنا صحیح تعارف بھی کرانے سے قاصر ہے، رسول اعظم اور خاندان نبوت کے اکابر نے جو تاثرات قائم کئے تھے انہیں ہماری بد اعمالیوں کی نظر بد لگ گئی اوربزرگوں کا دیا ہوا بھرم بھی ہم نے سرعام نیلام کردیا ۔ایسے حالات میں عزت ووقار کی بازیافت اور بحالی کے لئے ضروری ہے کہ ہم مغلوب اور سطحی افکار و نظریات سے باہر نکلیں اور آنے والی نسلوں کو بھی سمت مخالف میں بہنے والے سمندر میں رہ کر  پورےتشخص کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا درس دیں ، ہماری قومی اور ملی کامیابی یہی ہے ۔ عید کی خوشیوں سے ہندوستان کاچپہ چپہ اور اس کے تمام بسنے والےجب تک سرشار نہیں ہوں گے تب تک  عید کی سماجی اہمیت و افادیت پوری طرح عیاں نہیں ہوسکتی اورنہ مسلمان اس سے بھر پور لطف اندوز ہوسکتے ہیں ۔